10 ستمبر 2024 - 09:29
پاکستان میں اسرائیل نوازوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے / اسرائیل کا وجود کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا فضل الرحمن۔ مولانا فضل الرحمان

فضل الرحمن نے کہا: آج دنیا جان چکی ہے کہ پاکستانی عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا راستہ بند کر رکھا ہے اور پاکستان میں اسرائیل نوازوں اور غاصب اسرائیل ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حمایتیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، جمعیت علمائے اسلام ـ پاکستان کے قائد، مولانا فضل الرحمن نے مینار پاکستان ـ لاہور، پر ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صہیونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

انھوں نے کہا: آج دنیا جان چکی ہے کہ پاکستانی عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا راستہ بند کر رکھا ہے اور پاکستان میں اسرائیل نوازوں اور غاصب اسرائیل ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حمایتیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسرائیلی گماشتے، رائے عامہ کو فلسطینی عوام کے رنج و غم سے ہٹانے کے لئے بہتیری کوششیں کر رہے ہیں اور اسی اثناء میں بیرونی پریشر گروپ بھی اسرائیل نوازوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: پاکستانی عوام نے اپنی حکومت اور مغربی دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کسی وقت بھی فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونگے، کسی صورت میں بھی سازباز نہیں کریں گے اور اسرائیل کے سامنے سر خم نہیں کریں گے۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ فلسطین سے لے کر شام، لیبیا، عراق اور افغانستان تک کے عوام کا خون امریکیوں کے ہاتھ بہایا جا رہا ہے اسی بنا پر امریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے بارے میں اظہار خیال کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ غزہ میں صہیونی ریاست کے مظالم اور جرائم کا اصل حامی ہے چنانچہ امریکہ انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو انسانی حقوق کا قاتل ہے۔

ادھر غزہ میں وزارت صحت کے ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ غاصب صہیونی ریاست کے بہیمانہ حملوں میں ـ 7 اکتوبر 2023ع‍ سے لے کر اب تک ـ 40 ہزار 778 فلسطینی شہید اور 94 ہزار 454 افراد زخمی ہوئے ہیں اور شہداء اور زخمیوں میں 25 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ اور وزارت تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچے دوسرے سال بھی اسکولوں میں نہيں جا سکیں گے کیونکہ زیادہ تر اسکول تباہ ہو چکے ہیں اور صہیونی بمباریوں کا سلسلہ جاری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110